اوّلیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو
یاد آئی تیری انگشتِ حنائی مجھ کو
سرِ ایوان طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اُس نے تیری یاد دلائی مجھ کو
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہُوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
سائے کی طرح میرے ساتھ رہے رنج و اَلم
گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
دھوپ اُدھر ڈھلتی تھی دل ڈوبتا جاتا تھا اِدھر
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی مجھ کو
شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو
ناصر کاظمی
0 comments:
Post a Comment