عید اِس بار جو پردیس میں آئی ہوگی
یار نے ہچکیاں لے لے کے منائی ہوگی
چاند بھی بام پہ ماتم کناں آیا ہوگا
بزمِ غم قطبی ستارے نے سجائی ہوگی
رَنگ تو میرا پسندیدہ ہی پہنا ہوگا
نام کی مہندی بھی غلطی سے لگائی ہوگی
سابقہ عید کا منظر کوئی یاد آتے ہی
لاج کے مارے نظر اُس نے جھکائی ہوگی
میرے معیار پہ گھر سارا سجانے کے بعد
ایک ڈِش میری پسندیدہ بنائی ہوگی
پھر غزل کھول کے تعویذ پڑھی ہوگی مری
آہ مشکل سے کلیجے میں دَبائی ہوگی
اپنے پلو سے مری یاد کو پونچھا ہوگا
تیز غازے سے ہنسی رُخ پہ سجائی ہوگی
پہلے تو اُس نے گنے ہوں گے کئی سو تارے
پھر دَوا نیند کی اُٹھ کر کوئی کھائی ہوگی
عقل بولی کہ نہیں عید صنم کی ایسے
دِل بضد ہے کہ نہیں ایسے ہی آئی ہوگی
یا تو اِحساسِ ندامت نے رُلایا ہو گا
یا غزل قیس کی شوہر نے سنائی ہوگی
شہزاد قیس
0 comments:
Post a Comment