Saturday, 17 August 2013

ek hijer se kiya azaad hoye

اک، ہجر سے کیا آزاد ہوے , سو ہجر نیے ... ایجاد ہوے
پھر ایک نظر صیاد بنی
ایک نظر کا طائر صید ہوا پھر .... اشک کا دریا قید ہوا

پھر دھڑکن میں بھونجال پڑے
پھر عشق کا جوگی گلیوں میں
"تقدیر کا سانپ" ... اٹھا لایا

پھر ہوش کا جنگل سبز ہوا پھر شوقِ درندہ جاگ اٹھا
پھر ظلم کے تیور شام بنے ...اس شام میں پھر مہتاب چڑھا
پھر ہونٹ کی لعرزش گیت بنی ....ھر سانس کا نام صبا ٹھہرا
پھر ... شعر شعور کا ورد ہوا پھر زنجیریں زیور ٹھہریں
پھر تقریریں انعام ہوئیں

پھر خون سے لکھے جذبوں کی کچھ تحریریں .... نیلام ہوئیں
پھر درد "زلیخا بن بیٹھا" ..... پھر "قرب" کا "کرب" جوان ہوا

تب مجھ پے کُھلا "میں زندہ ہوں" .... پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا
کچھ وصال صبحیں شب خیز ہوئیں کچھ ہجر کی نبضیں ... تیز ہوئیں

جب قید کو تازہ عمر ملی اس قیدِ عمر کے بختوں نے
Iیک شام سحر سے پوچھ لیا

مجبور ہی رہنا تھا تَو ہمیں وہ ... پچھلا ہجر ہی کافی تھا
گر قیدِجہاں ہی اپنانی تھی
کیوں پچھلے جال کو چھوڑا تھا ؟
کس عہد پی پنجرہ ... تُوڑا تھا ؟

جب جال تیری کمزوری تھے صیاد کو کیوں ... بد نام کیا ؟
اب .... سوچ رہا ہوں مُدت سے

کیوں مجھ پے کُھلا ..میں زندہ ہوں؟ کیوں ... دل کو دھڑکنا یاد آیا

0 comments:

Post a Comment