Monday, 19 August 2013

Elaan-e-Rang

اعلانِ رنگ


سفید پرچم سفید پرچم
یہ ان کا پرچم تھا جو شکاگو کے چوک میں جمع ہو رہے تھے
جو نرم لہجوں میں اپنی محرومیوں کی شدت سمو رہے تھے
کہ ہم بھی حقدارِ زندگیِ ہیں مگر دل افگارِ زندگی ہیں
ہمارے دل میں بھی کچھ امنگیں ہیں ہم بھی کچھ خواب دیکھتے ہیں
خوشی ہی آنکھیں نہیں سجاتی ہیں غم بھی کچھ خواب دیکھتے ہیں


یکم مئی کی سحر نے جب اپنا نفسِ مضموں رقم کیا تھا
بلا نصیبعوں کو زندگی کی امنگ نے ہمقدم کیا تھا
اور اک جریدہ نگارِِ صبحِ شعورِ محنت نے آج کے دن
بنامِ محنت کشاں یہ پیغامِ حق سپردِ قلم کیا تھا


الم نصیبو بہادری سے ستم نصیبو بہادری سے
صفوں کو اپنی درست کر لو کہ جنگ آغاز ہو چکی ہے
تمہارے کتنے ہی باہنر ہاتھ ہیں جو بےروزگار ہیں آج
تمہارے کتنے نڈھال ڈھانچے گھروں میں بے انتظار ہیں آج


نظامِ دولت کے پنجہ ہاے درشت و خونیں شروع ہی سے
فریبِ قانون و امن کی آڑ میں چھپے ہیں ، چھپے رہے ہیں
گروہِ محنت کشاں ہو تیری زبان پر اب بس ایک نعرہ
مفاہمت ختم ہو چکی ہے ، مفاہمت ختم ہو چکی ہے
ستمگروں سے ستم کشوں کی معاملت ختم ہو چکی ہے
یکم مئی کا حسابِ عظمت تو آنے والے ہی کر سکیں گے


ہجوم گنجان ہو گیا تھا عمل کا اعلان ہو گیا تھا
تمام محرومیاں ہم آواز ہو گئیں تھیں کہ ہم یہاں ہیں
ہمارے سینوں میں ہیں خراشیں ہمارے جسموں پہ دھجیاں ہیں
ہمیں مشینوںکا رزق ٹھہرا کے رزق چھینا گیا ہمارا
ہماری بخشش پہ پلنے والو ہمارا حصہ تباہیاں ہیں


مگر یہ اک خواب تھا وہ اک خواب جس کی تعبیر خونچکاں تھی
رقم جو کی تھی قلم نے سرمایے کے وہ تحریر خونچکاں تھی
سفید پرچم نے خونِ محنت کو اپنے سینے پہ مل لیا تھا
یہ وقت کی سربلند تدبیر تھی یہ تدبیر خونچکاں تھی
دیارِ تاریخ کی فضائوں میں سرخ پرچم ابھر رہا تھا
یہ زندگی کی جلیل تنویر تھی یہ تنیر خونچکاں تھی


یکم مئی خون شدہ امنگوں کی حق طلب برہمی کا دن ہے
یکم مئی زندگی کے زخموں کی سرخرو شاعری کا دن ہے
یکم مئی اپنے خونِ ناحق کی سرخ پیغمبری کا دن ہے
یکم مئی زندگی کا اعلانِ رنگ ہے زندگی کا دن ہے


یہ زندگی خون کا سفر ہے اور ابتلا اس کی رہگزر ہے
جو خون اس سیلِ خون کی موجوں کو تند کر دے وہ نامور ہے
یہ خون ہے خون سر زندہ ، یہ خونِ زندہ ہے خونِ زندہ
وہ خون پرچم فراز ہوگا جو خونِ زندہ کا ہمسفر ہے


یہ خوں ہے سرنام یعنی سرنامئہ کتابِ امم یہ خوں ہے
ادب گہِ اجتہادِ تاریخ میں نصابِ امم یہ خوں ہے
صلیبِ اعلانِ حرفِ حق کا خطیب بھی یہ خطاب بھی یہ
یہ اپنا ناشر ہے اور منشورِ انقلابِ امم یہ خوں ہے
یہ خون ہی خیرِ جسم و جاں ہے اس امتہاں گاہِ زندگی میں
جہاں کہیں ظلم طعنہ زن ہو وہاں جوابِ امم یہ خوں ہے
یہ خون ہی خواب دیکھتا ہےشکست کی شب بھی ، صبحِ نو کے
پھر اپنی ہی گردشوں میں تعبیر کوشِ خوابِ امم یہ خوں ہے
یہ خوں اٹھاتا ہے غاصبوں کے خلاف طوفاں بغاواتوں کے
ہوں عام جب زندگی کی خوشیاں تو آب و تابِ امم یہ خوں ہے


جو ظلم سے دو بدو ہیں ان کی صفوں کو قوت پلائو ، آئو
اسی طرح خونِ زندئہ ہر زماں جہاں اقتدار ہوگا
نفاق اور افتراق ہی میں پناہ لیتے رہے ہیں ظالم
جو ظالموں کو پناہ دیگا وہ ظالموں میں شمار ہوگا

0 comments:

Post a Comment