Saturday 17 August 2013

koon se dukh ki baat karein

کون سے دکھ کی بات کریں
تم تو بس ایک ہی دکھ پوچھتے ہو
کون سے دکھ کی کریں بات ذرا یہ تو بتا
موسموں ، سرد ہواؤں کی مسیحائی کا دکھ
راہ کی دھول میں‌بکھری ہوئی بینائی کا دکھ
سنگ کے شہر میں خود سے شناسائی کا دکھ
یا کسی بھیگتی برسات میں‌تنہائی کا دکھ
کون سے دکھ کی کریں بات کہ دل کا دریا
اتنی طغیانی کی زد پر ہے کہ کچھ یاد نہیں
کب ہمیں بھول گیا کون سے ہرجائی کا دکھ
تم تو بس ایک ہی دکھ پوچھتے
ہو

0 comments:

Post a Comment