Wednesday, 8 October 2014

kabi zulmaton say gabray kabi haqeqaton say shnasai



کبھی ظلمتوں سے گبھرائےکبھی حقیقتوں
سےشناسائی
 کبھی شوق نے گرویدہ بنایا کبھی آرزو نہ بھر آئی
کبھی درد سے لبریز ہوا جام_ دل
 کبھی شدت_ پیاس کہ دشت_ صحرائی
عطا ہو نظر کو بینائی دل کو سوز
 مبتلائے ہوس جو ہے وە سودائی
ڈوبتے ہیں ستارے کسں تمنا میں

 سحر یہ کس کا ہے پیغام لائی
موجزن ہے اک طوفان سینے کے اندر
 اس کے گرداب میں سمندر کی گہرائی
عقل اپنی منزل_ اختتام پر رک گئی
 عشق_ تازہ دم نے جست لگائی
عقل محو_ حیرت ہے اس مقام پر
 جہاں کچھ اپنی دانست میں سمجھ نہ پائی
زندگی تسلیم_ حق ہے, سو جان بھی جائے
 منتظر ہے جان لبوں تک آئی
تجھے تلاش کا رستہ ہی نہیں معلوم
 دل سے ہے عالم_ بالا تک رسائی
تپش اس کی خالص کندن بنا دیتی ہے
 دل کی بٹھی میں جو آتش_ شوق لگائی
فکر_ انساں نے جہاں میں سب کچھ پالیا
 اپنی ہی فکر اسے بڑی دیر میں آئی


0 comments:

Post a Comment