کبھی ظلمتوں سے گبھرائےکبھی حقیقتوں سےشناسائی
کبھی شوق نے گرویدہ بنایا کبھی آرزو نہ بھر آئی
کبھی درد سے لبریز ہوا جام_ دل
کبھی شدت_ پیاس کہ دشت_ صحرائی
عطا ہو نظر کو بینائی دل کو سوز
مبتلائے ہوس جو ہے وە سودائی
ڈوبتے ہیں ستارے کسں تمنا میں
سحر یہ کس کا ہے پیغام لائی
موجزن ہے اک طوفان سینے کے اندر
اس کے گرداب میں سمندر کی گہرائی
عقل اپنی منزل_ اختتام پر رک گئی
عشق_ تازہ دم نے جست لگائی
عقل محو_ حیرت ہے اس مقام پر
جہاں کچھ اپنی دانست میں سمجھ نہ پائی
زندگی تسلیم_ حق ہے, سو جان بھی جائے
منتظر ہے جان لبوں تک آئی
تجھے تلاش کا رستہ ہی نہیں معلوم
دل سے ہے عالم_ بالا تک رسائی
تپش اس کی خالص کندن بنا دیتی ہے
دل کی بٹھی میں جو آتش_ شوق لگائی
فکر_ انساں نے جہاں میں سب کچھ پالیا
0 comments:
Post a Comment