کسی یونیورسٹی کا ایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا۔ پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے۔ چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کی جوڑی پر پڑی جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے کسی غریب کسان کی لگتی تھی۔
طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا: "سر! کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے"۔
پروفیسر نے جواب دیا: "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے، تم ایک امیر لڑکے ہو اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو۔"
ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے"۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے۔
غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے۔ کوٹ پہنتے ہوئے اس نے جونہی اپنا ایک پاؤں جوتے میں ڈالا تو اسے کچھ سخت سی چیز محسوس ہوئی۔ وہ دیکھنے کی خاطر جھکا تو اسے جوتے میں سے ایک سکہ ملا۔
اس نے سکے کو بڑی حیرانگی سے دیکھا، اسے الٹ پلٹ کیا اور پھر بار بار اسے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ شاید اسے کوئی بندہ نظر آ جائے لیکن اسے کوئی بھی نظر نہ آیا اور پھر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں اس نے وہ سکہ کوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔
لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور اسے ایک جھٹکا سا لگا جب دوسرا پاؤں پہنتے وقت اسے دوسرا سکہ ملا اس کے ساتھ ہی فرطِ جذبات سے اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں۔ وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑا، اور آسماں کی طرف منہ کر کےاپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا کہ جس نے اس کی کسی غیبی طریقے سے مدد فرمائی وگرنہ اس کی بیمار بیوی اور بھوکے بچوں کا، جو گھر میں روٹی تک کو ترس رہے تھے، کوئی پرسان حال نہ تھا۔
طالب علم پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تب اچانک پروفیسر بول پڑے اور لڑکے سے پوچھنے لگے: "کیا تم اب زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہو یا اس طرح کرتے جو تم کرنے جا رہے تھے؟"
لڑکے نے جواب دیا: "سر! آج آپ نے مجھے ایسا سبق سکھایا ہے جسے میں باقی کی ساری زندگی نہیں بھولوں گا"