Saturday, 17 August 2013

dil ek khuwab nager hai

دل اک خواب نگر ہے جس میں لمحہ لمحہ
اُس کے سپنے بند آنکھوں میں نئے دریچے وا کرتے ہیں
ہر چہرے میں اُس کا چہرہ رکھ دیتے ہیں
میرے اُس کے بیچ ہزاروں دیواریں ہیں
رسموں اور رواجوں کی
بیگانوں کی قاتل نظروں اور اپنوں کی باتوں کی
اُس کی بے پروائی کی اور اپنی پاگل سوچوں کی
کالی دُشمن راہوں کی
میں اس ظالم اندھی اور منہ زور فضا میں اک بے مایہ ذرہ تھا
جو اپنے سے لاکھوں میں گُم تھا
اُس کے خواب نے میری آنکھیں روشن کی ہیں
خاموشی میں جادو ہے تو پھر وہ جادو گر ہے
اُس کی چُپ نے میرے دل کو نطق دیا ہے
میں قطرہ تھا اُس کی ذات سمندر ہے
اُس کی محبت نے مجھ کو تخلیق کیا ہے

ارمانوں کی بانجھ ہوائیں
آنکھوں کے گُمنام جزیروں میں چلتی ہیں
اور خواہش کے خُشک درختوں کی شاخوں میں
سائیں سائیں کرتی ہیں
موسم آنکھیں پھیر کے دل کے درد نگر سے چل دیتے ہیں
بادل ویرانے پہ گھر کر بن برسے چل دیتے ہیں
اُس کے بنا آواز کی کرنیں۔ آنکھیں۔ پھول، ستارے، پتھر
دل اک شہرِ سنگ ہے جس میں گلیاں ،باغ، منارے، پتھر
خواہش جادو کی بستی ہے، مُڑ کے دیکھو، سارے پتھر
دریاؤں کے دھارے پتھر
وہ آئے تو پتھر کو آواز ملے
شہرِ سنگ کے دروازوں کو وا کرنے کا راز ملے
دل اک خواب نگرہے اس کے خوابوں کو آغاز ملے

0 comments:

Post a Comment