میں مقید ہوں اک اذیت میں
اور اذیت بھی کربِ ذات کی ہے
پھر بھی چُپ چاپ
اپنے آپ میں گُم
آتی جاتی رتوں کو دیکھتا ہوں
کتنے موسم یونہی گزار کے بھی
وہی عالم ہے حیرتوں کا میری
ہاں مگر !
گِرد ماہ و سال کے بیچ
بارہا ایک صورت شاہکار
پابہ زنجیر مجھ تلک آئی
اور
سرگوشیوں میں کہہ کے گئی
عالمِ ذات سے نکل کر دیکھ
یہاں ہر شے کسی عذاب میں ہے
اور اذیت بھی کربِ ذات کی ہے
پھر بھی چُپ چاپ
اپنے آپ میں گُم
آتی جاتی رتوں کو دیکھتا ہوں
کتنے موسم یونہی گزار کے بھی
وہی عالم ہے حیرتوں کا میری
ہاں مگر !
گِرد ماہ و سال کے بیچ
بارہا ایک صورت شاہکار
پابہ زنجیر مجھ تلک آئی
اور
سرگوشیوں میں کہہ کے گئی
عالمِ ذات سے نکل کر دیکھ
یہاں ہر شے کسی عذاب میں ہے
0 comments:
Post a Comment