Sunday, 18 August 2013

Tum mere dil ki khalish hoo lakin

تم مرے دل کی خلش ہو ... لیکن
دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں

ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں
جسم بھی جس کا نہیں، دل نہیں، چہرا بھی نہیں
خال وخد جس کے مجھے ازبر ہیں،
دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو
راستہ، شیشے کی دیوار کے پار
گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو
اپنے ہی کان میں اک سرگوشی
لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی

یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے
باد ِ حیراں سے اڑانے کے لیے
موجہء غم سے مٹانے کے لیے

دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے
جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر
کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف
گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں

شام ہر روز اترتی ہے سر ِجادہء جاں
وہی اک کہنہ اداسی لے کر
زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر
جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں
ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن
سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن

تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو
جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے
پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں
تم مرے دل کی خلش ہو لیکن

0 comments:

Post a Comment