Sunday, 18 August 2013

Baarish

بارش !!!

ہوائیں منجمند سی ہیں
ابر نے زمینِ جان کو گھیررکھا ہے
مگر پھر بھی صحرا کے تشنہ لب پہ
اک خمار تاری ہے
وہ جو آبلے چل رہے تھے تیری رَاہ میں چلتے چلتے
عجب ایک سکون محسوس کرتے ہیں
میں دُور سے اُٹھتی بَدلی کو دیکھتا ہوں
کہ شاید میرے صحنِ دل پہ
چند قطرے گریں تو سکون ملے
مگر تمہیں پتہ ہے
بارشوں کے ہونے سے
زرد پیلے پتوں کو
کچھ بھی تو نہیں ملتا!
وہ برگ آوارہ اُڑتے پھرتے ہیں!
فاصلہ نہیں مٹتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَستہ نہیں ملتا!
وہ جو صحرا میں اُمید تھی بارشوں کے ہونے کی
وہ ٹوٹ ہی جاتی ہے!!
صحنِ دل زرد ہی رہتا ہے!
بارشوں کے ہونے سے کچھ نہیں بدلتا ہے!
بس ہرے بھرے چمن کچھ اورشاداب ہوتے ہیں!
مگر تشنہ لب سیراب نہیں ہوتے

0 comments:

Post a Comment