Sunday, 18 August 2013

Tum udaasi ko dekh sakte hoo

تم اداسی کو دیکھ سکتے ہو
اداسی صبح کی پہلی کرن کو کاٹتی ہے
روشنی میں چھپ کے آتی ہے
اداسی آنکھ میں گھلتی ،رگوں میں پھیلتی
دل سے لپٹتی ہے
اداسی پتلیوں میں رقص کرتی ہے
اداسی سسکیوں سے لفظ لے کر
حسرتوں سے آنکھ لیتی ہے
مجسم بے دلی سےجسم پاکر ہجر کی تجسیم کرتی ہے
اداسی وقت کی دھنکی ہوئی روئی سے
اپنا پیرہن بنتی ہے، رنگوں پر اترتی ہے
یہ دن کی بھیڑ میں اوجھل نہیں ہوتی
خوشی اور غم کے بیچوں بیچ چلتی
دور سے پہچانی جاتی ہے
اداسی دو پہر کی دھوپ کی قاشیں نگلتی ہے
سلگتے اشک میں گھل کر
نظر کے سامنے نم دارپردہ تان دیتی ہے
گھنی دلدل کی صورت اپنے اندر کھینچ لیتی
ہر بن مو سے چپکتی ہے
اداسی شام اوڑھے خامشی کےگھر اترتی ہے
تھکی آنکھوں سے دیواروں کو تکتی
درد کی تانیں پکڑتی
ہجر کے آنگن میں چلتی
راگ کے دل میں دھڑکتی ہے
بدن کے تار کی لرزش میں ڈھل کر
بید مجنوں سی لرزتی ہے
اداسی رات کے کاجل سے دو آنکھیں بناتی ہے
برسنے کو ترستی تلملاتی ہے
اداسی جاگتی ہے سوچتی ہے سو نہیں سکتی
سحر شب آنکھ میں رہتی ہے پھر بھی رو نہی سکتی
اداسی کاٹتی ہے کٹ نہیں پاتی
دلوں میں بانٹتی ہے خود کو لیکن بٹ نہیں پاتی

0 comments:

Post a Comment