Sunday 18 August 2013

zaroori nahi hai

ضروری نہیں ہے جو ساحل کی گیلی خنک ریت پر
ہاتھ میں ہاتھ دے کر
سفر اور تلاطم کے قصے سُنائے
جزیروں ، ہواؤں اور ان دیکھے موسم
اور آنکھوں سے اوجھل کناروں پہ بکھرے ہوئے
منظروں، ذائقوں اور رنگوں کی باتیں کرے
وہ ان وارداتوں سے گزرا بھی ہو

گر کہے، آؤ ہم ان پریشاں موجوں کا پیچھا کریں
جو ترے اور مرے پاؤں کو چومتی ہیں
تلاطم کی بے نام منزل سے گزریں
یہ دیکھیں ہوائیں کسے ڈھونڈتی ہیں
تو چلنے سے پہلے ذرا سوچ لینا !!!

ضروری نہیں ہےجو ان دیکھے رستوں کی خبریں سُنائے
وہ ان رستوں کا شنا سا بھی ہو
کہیں یہ نہ ہو جو سمندر میں تُم اُس کو ڈھونڈوتو وہ
ساحلوں پہ کھڑا مسکراتا رہے

0 comments:

Post a Comment